زندگی کو چُرانے چلتے ھیں
ان ہی گلیوں سے جن پہ بچپن میں
نرم پُھوروں سے لفظ گاڑھے تھے
لفظ جن کے معنی اپنے تھے
جُز ہمارے نہ جانتا تھا کوئی
آج وہ لفظ اُٹھانے چلتے ھیں
زندگی کو چُرانے چلتے ھیں
ان درختوں کی چھال سے جن پر
وقت کا گیان لکھا کرتے تھے
بچپنے کے وہ بخت زندہ ھیں
آج تک وہ درخت زندہ ھیں
ٹہنیوں کو ہلانے چلتے ھیں
زندگی کو چُرانے چلتے ھیں
زندگی کی دکان سے پہلے
اک گلی سیدھی سمت جاتی ھے
موڑ کے آخری کنارے پر
اک دیا بے سبب سا رکھا ھے
اس دیے کو جلانے چلتے ھیں
زندگی کو چُرانے چلتے ھیں
No comments:
Post a Comment