ملی نجات قفس سے تو بے نگر ہو کر
سزا میں ہوگئی تخفیف در بدر ہو کر
ہوا وہ راندہء درگاہ، کر کے ایک خطا
قصُور ہم سے بھی لاکھوں ہوئے بشر ہو کر
اِسی لیے نہیں مانگا اُسے خدا سے کبھی
دعائیں ہوتی ہیں مغموم، بے ثمر ہو کر
تو یوں ہوا کہ دھواں بن کے رہ گئیں آنکھیں
ملا ہے جب سے وہ اِک شخص، خواب گر ہو کر
بجھا بجھا اُسے پایا تو کچھ ہوئی تسکیں
کہ خوش تو وہ بھی نہیں ہم سے بے خبر ہو کر
وہ مسکرا کے ملا جب تو مٹ گئے شکوے
کہ شام ، شام کہاں رہتی ہے، سحر ہو کر
یہ کہکشاں ترے قدموں میں آ بچھے گی بتول
کسی کا رہنا پڑے گا تجھے مگر، ہو کر
No comments:
Post a Comment