تلاش کرتے ہوئے دُور مت نِکل جانا
یونہی بھٹکتے ہوئے دُور مت نِکل جانا
قیاس ہے وہ سرِ راہ تم کو مل جائے
یہ آس رکھتے ہوئے دُور مت نِکل جانا
پلٹ کے آنے کا پھر اختیار ڈھونڈو گے
سمَے کے ڈھلتے ہوئے دُور مت نِکل جانا
چراغ بجھتے ہوئے دیر کتنی لگتی ہے
چراغ جلتے ہوئے دُور مت نِکل جانا
محبتوں کا تو تِریاق ہی نہیں ممکن
یہ زہر چکھتے ہوئے دُور مت نِکل جانا
وصال، خواب ہے تم اس کو خواب رہنے دو
یہ خواب تکتے ہوئے دُور مت نِکل جانا
وفا کی رُت کو ملا ہے کبھی ثبات کہیں؟
یہ رُت بدلتے ہوئے دُور مت نِکل جانا
یہاں سے آگے تو خاروں کے سلسلے ہیں بتول
گلاب چُنتے ہوئے دُور مت نِکل جانا
No comments:
Post a Comment