Tuesday, 19 February 2013

صبحیں نہیں رہی ہیں وہ راتیں نہیں رہیں


صبحیں نہیں رہی ہیں وہ راتیں نہیں رہیں 
اب خواب کیسے دیکھوں کہ آنکھیں نہیں رہیں

میں بھی وہی تھی‘ تُو بھی وہی تھا‘ سمے وہی
لب وَا ہوئے تو جانا‘ وہ باتیں نہیں رہیں

اُمید آخرش کہیں پیچھے ہی رہ گئی
منزل کی سمت جاتی ‘ وہ راہیں نہیں رہیں

سب اعتماد پل میں دَھرے کا دَھرا رہا
جب تیر چل چُکے تو وہ گھاتیں نہیں رہیں

مرنے کی جستجو میں تو جیتے رہے بتول
اب جینا چاہتے ہیں تو سانسیں نہیں رہیں


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets