صبحیں نہیں رہی ہیں وہ راتیں نہیں رہیں
اب خواب کیسے دیکھوں کہ آنکھیں نہیں رہیں
میں بھی وہی تھی‘ تُو بھی وہی تھا‘ سمے وہی
لب وَا ہوئے تو جانا‘ وہ باتیں نہیں رہیں
اُمید آخرش کہیں پیچھے ہی رہ گئی
منزل کی سمت جاتی ‘ وہ راہیں نہیں رہیں
سب اعتماد پل میں دَھرے کا دَھرا رہا
جب تیر چل چُکے تو وہ گھاتیں نہیں رہیں
مرنے کی جستجو میں تو جیتے رہے بتول
اب جینا چاہتے ہیں تو سانسیں نہیں رہیں
No comments:
Post a Comment