اب مانگ میں سجی ہوئی رستے کی دُھول ہے
شاید سفر وفا کا مرے دل کی بُھول ہے

دشنام، تیر باتوں کے، الزام اَن گِنت
اُس کی رفاقتوں میں مجھے سب قبُول ہے

تارِنفس میں بڑھ گئی اس واسطے چُبھن
دل کے نگر میں کوئی مہکتا ببُول ہے

خُوشبُو چرائے پھولوں کے تحفے مجھے نہ دے
پانی پہ خواب لِکھنا کہاں کا اصُول ہے

اب جا کے یہ کھُلا کہ وہ اُس کی تھی ایک چال
جو کہہ رہا تھا پیار کا دھندہ فضُول ہے