یاد میری بھی پڑی رہتی ہےتکیئےکےتلے
آخری خط کی طرح روز جلاتی ہوں اسے
میں سینت سینت کےرکھےہوئےلحافوں سے
تمہارے لمس کی گرمی چرانےوالی ہوں
ترےجنگل کی صندل ہوگئی ہوں
سلگنےسےمکمل ہوگئی ہوں
بدن نےاوڑھ لی ہےشال اس کی
ملائم، نرم، مخمل ہوگئی ہوں
مرےقریب ہی گو زرد شال رکھی ہے
بدن پہ میں نےمگر برف ڈال رکھی ہے
اوڑھ کےپھرتی تھی جو نیناں ساری رات
ریشم کی اس شال پہ یاد کےبوٹےتھے
چونکتی رہتی ہوں اکثر میں اکیلی گھر میں
کوئی تو ہےجو صدا دیتا ہےنیناں، نیناں
No comments:
Post a Comment