غم کی جاگیر کو کچھ اور بڑھا سکتے ہو
تم اگر چاہو مجھے چھوڑ کے جاسکتے ہو
خواب میں ساتھ تھے ہم، چاند مری مٹھی میں
تم جو چاہو اسے تعبیر بنا سکتے ہو
آئینہ ٹوٹ کے حصوں میں بٹا ہے کیسے
میں ہوں خاموش اگر، تم تو بتاسکتے ہو
عشق ہر ایک رکاوٹ کو مٹا دیتا ہے
آسماں تک کوئی دیوار اٹھا سکتے ہو
اس سے حاصل تو نہیں کچھ بھی مگر چاہو تو
عدل کے شہر کی زنجیر ہلا سکتے ہو
ہجر سرطان کی صورت میں پنپتا ہو جہاں
خون میں وصل کی تصویر سجا سکتے ہو؟
No comments:
Post a Comment