چلو اُس شہر جاتے ہیں
چلو اُس شہر جاتے ہیں
چلو تقدیر کو پھر آزماتے ہیں
چلو ہم ریت سے پیروں کے جاکر ابھی نقش چُنتے ہیں
ہواؤں پرلکھی سرگوشیوں کو آج سُنتے ہیں
چلو پلکوں سے ، نیلے اورسنہرے ریشمی سے خواب بُنتے ہیں
ہتھیلی پر کِسی نے لکھ دیا تھا لمس ہونٹوں کا
اورآنکھوں کے دَریچوں میں ادھورا خواب رکھا تھا
سماعت اَن چُھوئی سی آہٹوں کی زَد میں ہے شاید
جبھی تو دھڑکنیں چُپ ہیں ، جبھی تو ساعتیں چُپ ہیں
چلو اُس شہر جاتے ہیں
جہاں پر وصل کو زنجیر سے باندھا نہیں جاتا
جہاں تدبیر کو تقدیر سے باندھا نہیں جاتا
معانی کو جہاں تحریر سے باندھا نہیں جاتا
جہاں دل کوکسی جاگیر سے باندھا نہیں جاتا
جہاں پر چاند، تاروں سے مزّین رات ہوتی ہے
جہاں پر چاہتوں کی ہر طرف برسات ہوتی ہے
محبت کی جہاں پر جیت ہوتی ہے،
جہاں پر دل کے سارے دُشمنوں کومات ہوتی ہے
چلو اُس شہرجاتے ہیں
Blogger Wordpress Gadgets
No comments:
Post a Comment