یہ گئےدنوں کاملال ہے
مِرے دُشمنوں سے کہوکوئی
کسی گہری چال کے اہتمام کا سلسلہ ہی فضول ہے
کہ شکست یوں بھی قبول ہے
کبھی حوصلے جو مثال تھے
وہ نہیں رہے
مِرے حرف حرف کے جسم پر
جو معانی کے پروبال تھے وہ نہیں رہے
مِری شاعری کے جہان کو
کبھی تتلیوں ،کبھی جگنوؤں سے سجائے پھرتے
خیال تھے
وہ نہیں رہے
مِرے دشمنوں سے کہو کوئی
وہ جو شام شہر وصال میں
کوئی روشنی سی لیے ہوئے کسی لب پہ جتنے سوال تھے
وہ نہیں رہے
جو وفا کے باب میں وحشتوں کے کمال تھے،وہ نہیں رہے
مِرے دُشمنوں سے کہو کوئی
وہ کبھی جو عِہد نشاط میں
مُجھے خود پہ اِتنا غرور تھا کہیں کھوگیا
وہ جو فاتحانہ خُمار میں
مِرے سارے خواب نہال تھے
وہ نہیں رہے
کبھی دشت لشکر شام میں
مِرے سُرخرد مہ وسال تھے، وہ نہیں رہے
کہ بس اب تو دل کی زباں پر
فقط ایک قصّئہ حال ہے—–جو
نڈھال ہے
جو گئے دنوں کا ملال ہے
مِرے دُشمنوں سے کہو کوئی
No comments:
Post a Comment