Monday, 18 February 2013

کہو وہ چاند کیسا تھا ؟


کہو ، وہ دَشت کیسا تھا ؟
جِدھر سب کچھ لُٹا آئے
جِدھر آنکھیں گنوا آئے
کہا ، سیلاب جیسا تھا، بہت چاہا کہ بچ نکلیں مگر سب کچھ بہا آئے

کہو ، وہ ہجر کیسا تھا ؟
کبھی چُھو کر اسے دیکھا 
تو تُم نے کیا بھلا پایا
کہا ، بس آگ جیسا تھا ، اسے چُھو کر تو اپنی رُوح یہ تن من جلا آئے

کہو ، وہ وصل کیسا تھا ؟
تمہیں جب چُھو لیا اُس نے
تو کیا احساس جاگا تھا ؟
کہا ، اِک راستے جیسا ،جدھر سے بس گزرنا تھا ، مکاں لیکن بنا آئے

کہو ، وہ چاند کیسا تھا ؟
فلک سے جو اُتر آیا !
تمھاری آنکھ میں بسنے
کہا ، وہ خواب جیسا تھا ، نہیں تعبیر تھی اس کی ، اسے اِک شب سُلا آئے

کہو ، وہ عشق کیسا تھا ؟
بِنا سوچے بِنا سمجھے ،
بِنا پرکھے کیا تُم نے 
کہا ، تتلی کے رنگ جیسا ، بہت کچا انوکھا سا ، جبھی اس کو بُھلا آئے

کہو ، وہ نام کیسا تھا ؟
جِسے صحراؤں اور چنچل ،
ہواؤں پر لکھا تُم نے 
کہا ، بس موسموں جیسا ، ناجانے کس طرح کس پل کسی رَو میں مِٹا آئے


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets