خوشی کی رت کو پکارو تو کب نہیں آتی
اداسیوں کی گھڑی بےسبٌب نہیں آتی
وہ جس میں چاند ،ستارے کلام کرتے ہیں
محبتوں میں سنا ہے وہ شب نہیں آتی
قدم قدم پہ وفا توڑتی ہے دَم لیکن
جفا سنا ہے کبھی جاں بہ لب نہیں آتی
وہ لوٹ آئے گا جاکر یہ مانتے ہیں مگر
بدن سے روح نکل جائے جب، نہیں آتی
ہوں بند آنکھیں تو صورت تمہاری آتی ہے
اٹھا کے دیکھوں جو پلکیں تو تب، نہیں آتی
بتول ! کوئی دعا مستجاب ہو کیسے
صدائے کن فیکوں بھی تو اب نہیں آتی
No comments:
Post a Comment