اگر کبھی میری یاد آۓ
تو چاند راتوں کی دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر تمہارے قدموں میں آ گرے تو یہ جان لینا
وہ استعارہ تھا میرے دل کا
اگر نہ آۓ؟ ۔۔۔
مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ کسی پر نگاہ ڈالو
تو اس کی دیوار جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جاۓ!!
اگر کبھی میری یاد آۓ
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خشبووں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطرہ کے آئینے میں تمہیں ملوں گا
اگر ستاروں میں، اوس خشبووں میں
نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو جان لینا
کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی سلگ چکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
میں خاک بن کر سمندر میں سفر کروں گا
کسی نہ دیکھے ہوۓ جزیرے پہ رک کے تمہیں صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو
!تو اس جزیرے پہ بھی اترنا
No comments:
Post a Comment