چاندنی رات کے ہاتھوں پہ سوار اتری ہے
کوئی خوشبو میری دہلیز کے پار اتری ہے
اس میں کچھ رنگ ہیں ،خواب بھی اور خوشبوئیں بھی
جھلملاتی ہوئی خواہش بھی ۔آرزوئیں بھی
اس خوشبو میں کئی درد بھی ،افسانے بھی
اسی خوشبو نے بنائے کئی دیوانے بھی
میرے آنچل پہ امیدوں کی قطار اتری ہے
کوئی خوشبو میری دہلیز کے پار اتری ہے
اسی خوشبو سے کسی کی یاد کہ در کھلتے ہیں
میرے پیروں سے جو لپٹے تو سفر کھلتے ہیں
یہی خوشبو جو مجھے گھر سے اٹھا لائی تھی
اب کسی طور پلٹ کر جانے نہیں دیتی
میری دہلیز بلاتی ہے مجھے لوٹ آؤ
یہی خوشبو مجھے واپس نہیں آنے دیتی
رنج اور درد میں ڈوبی یہ بہار اتری ہے
کوئی خوشبو میری دہلیز کے پار اتری ہے
چاندنی رات کے ہاتھوں سوار اتری ہے
کوئی خوشبو میری دہلیز کے پار اتری ہے
No comments:
Post a Comment