صبح سے نکلا ہوا ہے گھر سے
رات بھی بیت چلی ہے اب تو
جانے کس بیتے ہوئے وصل کے کملائے ہوئے در پہ پڑا ہوگا
جانے کس الجھے ہوئے ہجر کے زانو پہ ذرا ٹیک کے سر
چین سے سویا ہوگا
دل ابھی لوٹا نہیں
صبح سے نکلا ہوا ہے گھر
آگیا ہوگا کسی درد کے بہلاوے میں
اور کسی راہ کے ویران کنارے پہ پڑا خواب بلکتا ہوگا
آتے جانتے ہر اِک مسافر کی طرف
ایک سہمی ہوئی امید سے تکتا ہو گا
سوچتا ہوگا جدائی کی کوئی انت نہیں
No comments:
Post a Comment