آج ہم بچھڑے تو پھر کتنے رنگیلے ہو گئے
میری آنکھیں سرخ تیرے ہاتھ پیلے ہو گئے
اب تری یادوں کے نشتر بھی ہوئے جاتے ہیں کند
ہم کو کتنے روز اپنے زخم چھیلے ہو گئے
کب کی پتھر ہو چکی تھیں منتظر آنکھیں مگر
چھو کے دیکھا جو انھیں تو ہاتھ گیلے ہو گئے
جانے کیا احساس سازِ حسن کی تاروں میں ہے
جن کو چھوتے ہی مرے نغمے رسیلے ہو گئے
اب کوئی امید ہے شاہد نہ کوئی آرزو
آسرے ٹوٹے تو جینے کے وسیلے ہو گئے
No comments:
Post a Comment