کبھی کہنا کبھی کہہ کر نہ آنا یاد رہتا ہے
مجھے اس شخص کا ہر اک بہانہ یاد رہتا ہے
کو ئی بھی وقت ہو غم اسکا مجھ کو ڈھونڈ لیتا ہے
یہ ایسا تیر ہے جس کو نشانہ یاد رہتا ہے
نکلتے ہو تو رستے میں مرا گھر بھول جاتے ہو
تمھیں ویسے تو یہ سارا زمانہ یاد رہتا ہے
سحر ہو گی تو ہم بھی گھر کو واپس لوٹ جائیں گے
ہم ایسے شب گزیدوں کو ٹھکانہ یاد رہتا ہے
No comments:
Post a Comment