آوارگی میں ہم نے اس کو بھی ہنر جانا
اقرار _ وفا کرنا پھر اس سے مکر جانا
گر خواب نہیں کوئی پھر زیست کا کیا کرنا؟
ہر صبح کو جی اٹھنا ہر رات کو مر جانا
شب بھر کے ٹھکانے کو اک چھت کے سوا کیا ہے؟
کیا دیرسے گھر جانا ، کیا وقت پہ گھر جانا
ایسا نہ ہو دریا میں تم بار _ گراں ٹھہرو
جب لوگ زیادہ ہوں کشتی سے اتر جانا
سقراط کے پینے سے کیا مجھ پہ عیاں ہوتا ؟
خود زہر پیا میں نے تب اس کا اثرجانا
جب بھی نظر آؤ گے ہم تم کو پکاریں گے
چاہو تو ٹھہر جانا چاہو تو گزر جانا
No comments:
Post a Comment