اس کا بھی غم بہت اب معدوم ہو چکا ہے
وہ خوش ہے کھو کے ہم کو معلوم ہو چکا ہے
ہر سوچ میں وہ میری کچھ ایسے بس گیا ہے
ہر فعل میرا اس سے موسوم ہو چکا ہے
کیا بات ہو گئی ہے بادل نہیں برستا
وہ حال پر تو میرے مغموم ہو چکا ہے
رہتا ہے وہ نظر میں چاہے کہیں بھی جائے
آنکھوں میں ایک چہرہ مرقوم ہو چکا ہے
اک بار لوگ پھر سے دیوانے ہو رہے ہیں
کہتے ہیں وہ دوبارہ معصوم ہو چکا ہے
ہر شخص کہہ رہا ہے میرا اداس چہرہ
اس بے وفا کے غم کا مفہوم ہو چکا ہے
جو زندگی کے سارے دُکھ درد بانٹتا تھا
اس سائے سے صفی اب محروم ہو چکا ہے
No comments:
Post a Comment