بستیاں سنہری تھیں لوگ بھی سنہرے تھے
کون سی جگہ تھی وہ ہم جہاں پہ ٹھہرے تھے
اک صدا کی ویرانی راستہ بتاتی تھی
اور اپنے چاروں سمت خواہشوں کے میلے تھے
نے سمے گزرتے تھے، نے پلَک جھپکتی تھی
ورنہ اپنی آنکھوں میں رت جگے تو گہرے تھے
اب سلیم اکیلے ہو ورنہ عمر بھر تم تو
دوستی میں اندھے تھے، دشمنی میں بہرے تھے
No comments:
Post a Comment