مل گیا تھا تو اسے خود سے خفا رکھنا تھا
دل کو کچھ دیر تو مصروف دعا رکھنا تھا۔
میں نا کہتا تھا کے سانپوں سے آتے ہیں راستے
گھر سے نکلے تھے تو ہاتھوں میں عسا رکھنا تھا۔
بات جب ترک تعلق پہ ہی ٹھہری تھی تو پھر
دل میں احساس غم یار بھی کیا رکھنا تھا۔
دامن موج ہوا یوں تو نا خالی جاتا
گھر کی دہلیز پہ کوئی تو دیا رکھنا تھا۔
کیا خبر اس کے تعاقب میں ہوں کتنی سوچیں ؟
اپنا انداز تو اوروں سے جدا رکھنا تھا۔
چاندنی بند کواڑوں میں کہاں اترے گی ؟
اک دریچہ تو بھرے گھر میں کھلا رکھنا تھا۔
اسکی خوشبو سے سجانا تھا جو دل کو محسن
اسکی سانسوں کا لقب موج صباء رکھنا تھا۔
No comments:
Post a Comment