Thursday 1 August 2013

اسکی سانسوں کا لقب موج صباء رکھنا تھا


مل گیا تھا تو اسے خود سے خفا رکھنا تھا
دل کو کچھ دیر تو مصروف دعا رکھنا تھا۔

میں نا کہتا تھا کے سانپوں سے آتے ہیں راستے
گھر سے نکلے تھے تو ہاتھوں میں عسا رکھنا تھا۔

بات جب ترک تعلق پہ ہی ٹھہری تھی تو پھر
دل میں احساس غم یار بھی کیا رکھنا تھا۔

دامن موج ہوا یوں تو نا خالی جاتا
گھر کی دہلیز پہ کوئی تو دیا رکھنا تھا۔

کیا خبر اس کے تعاقب میں ہوں کتنی سوچیں ؟
اپنا انداز تو اوروں سے جدا رکھنا تھا۔

چاندنی بند کواڑوں میں کہاں اترے گی ؟
اک دریچہ تو بھرے گھر میں کھلا رکھنا تھا۔

اسکی خوشبو سے سجانا تھا جو دل کو محسن
اسکی سانسوں کا لقب موج صباء رکھنا تھا۔

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets