خوشی کی بات ہو یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں
تیری آواز کا چہرہ میں چھو کر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے لبوں پہ ذکرِ فصلِ گل نہیں آیا
مگر اِک پھول کھلتا اپنے اندر دیکھ سکتی ہوں
مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں
کنارہ ڈھونڈنے کی چاہ تک مجھ میں نہیں ہو گی
میں اپنے گرد اک ایسا سمندر دیکھ سکتی ہوں
خیال آتا ہے آدھی رات کو جب بھی تیرا دل میں
اُترتا ا ک صحیفہ اپنے اوپر دیکھ سکتی ہوں
وصال و ہجر اب یکساں ہیں ، وہ منزل ہے الفت میں
میں آنکھیں بند کرکے تجھکو اکثر دیکھ سکتی ہوں
ابھی تیرے سوا دنیا بھی ہے موجود اس دل میں
میں خود کو کسطرح تیرے برابر دیکھ سکتی ہوں