تیری راہ میں رکھ کر اپنی شام کی آہٹ
دم بخود سی بیٹھی ہے میرے بام کی آہٹ
کیوں ٹھہر گئی دل میں اُس قیام کی آہٹ
کیوں گزر نہیں جاتی اُس مقام کی آہٹ
ہاتھ کی لکیروں سے کس طرح نکالوں میں
تیری یاد کے موسم تیرے نام کی آہٹ
جب یہ دل رفاقت کی کچی نیند سے جاگا
ہر طرف سنائی دی اختتام کی آہٹ
رات کے اُترتے ہی دل کی سُونی گلیوں میں
جاگ اُٹھتی ہے پھر سے تیرے نام کی آہٹ
بیٹھ جاتی ہے آکر در پہ کیوں میرے
تیرے ساتھ کی خوشبو، تیرے گام کی آہٹ
No comments:
Post a Comment