ہر شام تم سے ملنے کی عادت سی ھو گئی
پھر رفتہ رفتہ تم سے محبت سی ھو گئی
شاید یہ تازہ تازہ جُدائی کا اثر تھا
ہر شکل یک بہ یک تیری صورت سی ھو گئی
اِک نام جھلملانے لگا دل کی طاق پر
اِک یاد جیسے باعثِ راحت سی ھو گئی
خود کو سجا سنوار کے رھنے کا شوق تھا
پھر اپنے آپ سے نفرت سی ھو گئی
میں نے کوئی بیانِ صفائی نہیں دیا
بس چُپ رھے تو خُود ہی وضاحت سی ھو گئی۔
No comments:
Post a Comment