عجیب کرب میں گزری ' جہاں گزری
اگرچہ چاھنے والوں کے ' درمیاں گزری
تمام عمر جلاتے رھے ' چراغ ِامید
تمام عمر اُمیدوں کے ' درمیاں گزری
گزر گئی جو تیرے ساتھ ' یادگار ھے وہ
تیرے بغیر جو گزری ' بلائے جاں گزری
مجھے سکون میّسر نہیں تو ' کیا غم ھے
... گُلوں کی عمر تو کانٹوں کے ' درمیاں گزری
عجیب چیز ھے ' یہ گردش ِزمانہ بھی
کبھی زمیں پہ ' کبھی مثل ِآسماں گزری
No comments:
Post a Comment