شہرِ جمال کے خس و خاشاک ہو گئے
اب آئے ہو جب آگ سے ہم خاک ہو گئے
ہم سے فروغِ خاک نہ زیبائی آب کی
کائی کی طرح تہمتِ پوشاک ہو گئے
پیراہنِ صبا تو کسی طور سِل گیا
دامانِ صد بہار مگر چاک ہو گئے
اے ابرِ خاص! ہم پہ برسنے کا اب خیال
جل کر تیرے فراق میں جب راکھ ہو گئے
قائم تھے اپنے عہد پہ یہ دیدہ ہائے غم
کیا یاد آ گیا ہے کہ نمناک ہو گئے
اَب تک جنوں ہی اپنا اثاثہ رہا مگر
تُجھ سے ملے تو صاحبِ ادراک ہو گئے
خوشبو تو بن نہ پائے سو کچھ ہم سے بے ہنر
اے موجۂ صبا ترے پیچاک ہو گئے
No comments:
Post a Comment