Thursday, 19 September 2013

کہو، کیا راہِ الفت میں دل و جاں وار سکتے ہو ؟


کہو، کیا جل رہا ہے پھر جہاں میں آشیاں اس کا ؟
نہیں ، جب دل سلگتا ہے تو اٹھتا ہے دھواں اس کا

بھلا کیوں پھول کی پہچان بنتی ہے مہک اسکی ؟
سنو ، سورج کی کرنوں سے ہی ملتا ہے نشاں اس کا

کہو، کیا راہِ الفت میں دل و جاں وار سکتے ہو ؟
سنو ، دل کی زمیں اس کی نظر کا آسماں اس کا

بھلا کب دنی پڑتی ہے وضاحت سامنے سب کے ؟
پتہ جب پوچھتی ہیں آکے ہم سے دوریاں اس کا

خطا دونوں کی تھی لیکن سزا کیوں ایک نے پائی؟
سنو تنہا تھا دل اپنا مگر سارا جہاں اس کا

سنو ، اس بیوفا کی یاد تو آتی نہیں ہو گی ؟
سنو ، دل رک سا جاتا ہے جو آتا دھیاں اس کا

سنو، وہ ہر جگہ جاکر تمہیں بدنام کرتا ہے !
کہا، یہ جاں سلامت ہے ، رہے جاری بیاں اسکا

بچھڑ کر کیا کبھی سوچا اسے ملنے کے بارے میں ؟
سنو، دھرتی کے ہم باسی ، فلک پر ہے مکاں اس کا

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets