یہ چمک دھُول میں تحلیل بھی ہو سکتی ہے
کائنات اِک نئی تشکیل بھی ہو سکتی ہے
تم نہ سمجھو گے کوئی اور سمجھ لے گا اِسے
خامشی درد کی ترسِیل بھی ہو سکتی ہے
کچھ سنبھل کر رہو اِن سادہ ملاقاتوں میں
دوستی عشق میں تبدیل بھی ہو سکتی ہے
میں ادھُورا ہوں مگر خُود کو ادھُورا نہ سمجھ
مجھ سے مل کر تری تکمیل بھی ہو سکتی ہے
کاٹنا رات کا آسان بھی ہو سکتا ہے
دل میں اِک یاد کی قندِیل بھی ہو سکتی ہے
اس قدر بھی نہ بڑھو دامنِ دل کی جانب
یہ محبت کوئی تمثِیل بھی ہو سکتی ہے
ہاں دل و جان فدا کر دو ظہیر اس پہ مگر
یہ بھی اِمکان ہے تذلِیل بھی ہو سکتی ہے
No comments:
Post a Comment