حیران ہوں کے یہ کون سا دستور وفا ہے
تو مثل رگ جاں ہے تو کیوں مجھ سے جدا ہے
تو اہل نظر تو نہیں تجھ کو خبر کیا
پہلو میں تیرے کوئی زمانے سے کھڑا ہے
لکھا ہے میرا نام سمندر پہ ہوا نے ،
اور دونوں کی فطرت میں سکون ہے نا وفا ہے
اٹھتی ہیں جو پہلو سے میرے درد کی لہریں
بیتاب سمندر کوئی سینے میں دبا ہے
اے ذیست کے دوزخ سے گزرتے ہوئے لمحوں
سوچا ہے کبھی تم نے کہہ جینا بھی سزا ہے
No comments:
Post a Comment