آسماں گر پڑا نہ جانے کیوں
درد بڑھتا گیا نہ جانے کیوں
بھُول جانے کا مشورہ دے کر
وہ بھی چُپ چُپ رہا نہ جانے کیوں
پیار تو بے بدل صحیفہ ھے
اُس نے ٹھُکرا دیا نہ جانے کیوں
دل کوئی خواب کھوجتا ھے نیا
ھم نےتم سے کہا، نہ جانے کیوں
آبلے رو رہے ھیں ہاتھوں پر
یہ دیا بُجھ گیا نہ جانے کیوں
ھم نےپوچھا،وفا کی کوئی مثال؟
ہنس کے وہ چل پڑا نہ جانے کیوں
اُس کی چوکھٹ پہ رکھ دیاتھا بتول
سر نہ پھر اُٹھ سکا نہ جانے کیوں
No comments:
Post a Comment