تم جو پل بھر کو ٹھر جائو تو یہ لمحے
آنے والے کئی لمحوں کی امانت ہو جائیں
تم جو ٹھر جائو تو یہ رات،یہ مہتاب
یہ سبزہ،یہ گلاب اور ہم دونوں کے خواب
سب کے سب ایسے بہم ہوں کے حقیقت ہو جائیں
تم ٹھر جائو کہ عنوان کی تفسیر ہو تم
تم سے تلخئ اوقات کا موسم بدلے
رات تو کیا بدلے گی،حالات تو کیا بدلیں گے
تم جو ٹھر جائو تو میری ذات کا موسم بدلے
مہرباں ہو کہ نہ ٹھرو،تو پھر یوں ٹھرو
جیسے پل بھر کوئی خوابِ تمنا ٹھرے
جیسے درویش مدح نوش کے پیالے میں کبھی
ایک دو پل کے لیئے تلخئ دنیا ٹھرے
ٹھر جائو کے مدارت کے مئے خانے سے
چلتے چلتے کوئی ایک آدھ سبو ہو جائے
اس سے پہلے کہ کوئی لمحہءِ آئندہ کا تیر
اس طرح آئے کہ پیوستِ گلو ہو جائے
No comments:
Post a Comment