مجھ سے کیوں ملتی ہے اب روپ بدل کر بارش
پھر تیرے لمس کا احساس ہونے لگتا ہے
جب بھی بہتی ہے میرے اشکوں میں ڈھل کر بارش
دُھواں سا اُٹھتا ہے تب شہر ِ دل کی گلیوں سے
جب سُلگتی ہے تیری یاد میں جل کر بارش
ضبطِ غم ٹوٹنے نہ پائے، تم صدا دیتی رہو
خود ہی آجائے گی دروازے پہ چل کر بارش
میں تو اب پیاس کے سہرا میں پناہ لے ہی چُکا
کیوں مجھے ڈھونڈتی ہے ہاتھوں کو مل کر بارش
No comments:
Post a Comment