تیری یادوں کا سورج نکلتا رہا، چاند جلتا رہا
کوئی بستر پہ شبنم لپیٹے ہوئے خواب دیکھا کیا
کوئی یادوں میں کروٹ بدلتا رہا، چاند جلتا رہا
میری آنکھوں میں کیمپس کی سب ساعتیں جاگتی ہیں ابھی
نہر پر تو مرے ساتھ چلتا رہا، چاند جلتا رہا
میں تو یہ جانتا ہوں کہ جس شب مجھے چھوڑ کر تم گئے
آسمانوں سے شعلہ نکلتا رہا ، چاند جلتا رہا
رات آئی تو کیا کیا کرشمے ہوئے تجھ کو معلوم ہے؟
تیری یادوں کا سورج اُبلتا رہا ، چاند جلتا رہا
رات بھر میری پلکوں کی دہلیز پر خواب گرتے رہے
دل تڑپتا رہا، ہاتھ ملتا رہا ، چاند جلتا رہا
یہ دسمبر کہ جس میں کڑی دھوپ بھی میٹھی لگنے لگے
تم نہیں تو دسمبر سلگتا رہا، چاند جلتا رہا
آج بھی وہ تقدس بھری رات مہکی ہوئی ہے وصی
میں کسی میں ، کوئی مجھ میں ڈھلتا رہا ، چاند جلتا رہا
No comments:
Post a Comment