چاند چہروں کے فروزاں تھے کہ ناموں کے گلاب
شاخِ مژگاں پہ مہکتے رہے یادوں کے گلاب

تیری زیبائی سلامت رہے اے قامتِ دوست
زیبِ پوشاک رہیں گے میرے زخموں کے گلاب

جی اُٹھی خاک نمی پا کے میرے اشکوں کی
کِھل رہے ہیں میری گِل میں سے نئے خوابوں کے گلاب

اُس نے چُوما میری آنکھوں کو سحر دَم اور پھر
رکھ گیا میرے سرہانے میرے خوابوں کے گلاب

کون چُھو کر انہیں گُزرا کہ کِھلے جاتے ہیں
اتنے سرشار تو پہلے نہ تھے ہونٹوں کے گلاب

دوپہر شام ہوئی شام شبِ تار ہوئی
اور کِھلتے رہے کِھلتے رہے باتوں کے گلاب

سرحدِ نُور پہ اس طرح سے خوشبو پہنچی
چاند پُھولوں کے ہُوئے اور بنے تاروں کے گلاب