مچلتی ہے میری آغوش میں خوشبوئے یار اب تک
میری آنکھوں میں ہے اُس سحرِ رنگین کا خمار اب تک
زمانہ ہو چکا اس اوّلیں مڈبھیڑ کو، لیکن
سنائی دے رہی ہے تیری نظروں کی پکار اب تک
غمِ دوراں کی تاریکی کے سیلِ بیکراں اُمڈے
مگر ٹوُٹا نہیں تیری تجلی کا حصار اب تک
شبستانوں کے در ہر چند مُجھ پر وا نہیں ہوتے
مگر اِک مست و بیخود رات کا ہے انتظار اب تک
کوئی آتا نہیں اب دل کی بستی میں، مگر پھر بھی
اُمیدوں کے چراغوں سے ہیں روشن رہگزار اب تک
ابھی تک نصف شب کو چاندنی گاتی ہے جھرنوں میں
نہیں بدلی شبابِ منتظر کی یاد گار اب تک
جلا رکھے ہیں شہراہوں پہ اشکوں کے دِیے کب سے
نہیں گزرا مگر اس سمت سے وہ شہسوار اب تک
جو حُسن و عشق کی پیکار میں آنکھوں سے ٹپکے تھے
انھیں تاروں سے ہے دامانِ ہستی زرنگار اب تک
شکستِ آرزو کو عِشق کا انجام کیوں سمجھوں
مقابل ہے میرے آئینۂ لیل و نہار اب تک
ندیم ان مشعلوں کی جگمگاہٹ بڑھتی جاتی ہے
کہ لہرایا نہیں اس بزم میں دامانِ یار اب تک
No comments:
Post a Comment