وہ عکس تھی مست بہاروں کا
وہ رنگ تھی شوخ نظاروں کا
وہ نور تھی چاند ستاروں کا
وہ میری آنکھ کا تارا تھی
میں جان سے اس کو پیارا تھا
وہ لے تھی میرے گیتوں کی
وہ شعلہ تھی یا شبنم تھی
کچھ پاگل سی کچھ گم سم سی
مُسکان تھی میرے ہونٹوں کی
جب راہ میں مجھ سے مل جاتی
وہ شرم سے آنکھ جھکا دیتی
پھر ہاتھ ہوا میں لہرا کر
وہ چاند کو بھی گہنا دیتی
اک روز ملی اس حال میں وہ
نہ آنکھ میں اس کی شوخی تھی
نہ باتوں میں گہرائی تھی
کبھی ہنستی تھی کبھی روتی تھی
غمگین مجھے وہ لگتی تھی
معمول سے ہٹ کہ اس کی ہنسی
کچھ بول نہ پائی تھی لیکن
اک کاغذ ہاتھ میں تھامے تھی
اُس کاغذ پر یہ لکھا تھا
اے جانِ خلوص خدا حافظ
اے جانِ تمنا رب راکھا
No comments:
Post a Comment