لذّتِ شوق نے سنی کب تھی
ان کہی ایسی ان کہی کب تھی
بس دھواں ہی دھواں تھا پھیلا ہوا
میری آنکھوں میں روشنی کب تھی
کچھ بھی کہنے سے اب میں ڈرتا ہوں
پہلے ایسی بھی بے بسی کب تھی
فصل اگتی بھی کیسے بنجر میں
میرے کھیتوں میں بھی نمی کب تھی
اس سے ملنے کی آرزو تھی بہت
جب وہ آیا تو زندگی کب تھی
سب نگاہوں کا میری دھوکا تھا
کیل تابوت میں لگی کب تھی
درد کیسے میرا سمجھ لیتا
ٹھیس اس کو بھلا لگی کب تھی
رابطے میں اسی کے رہنا ہے
بات اس سے مگر بنی کب تھی
ہم ہی آئے تھے دیر سے عادل
اس کے دینے میں کچھ کمی کب تھی
No comments:
Post a Comment