رات بیٹھا تھا میرے پاس خیالوں میں کوئی
انگلیاں پھیر رہا تھا میرے بالوں میں کوئی
دیدہء تر نےبڑی دیر میں پہچانا اُسے
روپ کھو بیٹھا ہے دو چار ہی سالوں میںکوئی
غمزدہ شب کی گلوگیر ہوا کہتی ہے
یاد کرتا ہے مجھے چاہنے والوںمیں کوئی
میںشبِ شہر میںتھا اور ادھر گاؤں میں
جلتی شمعیں لیے پھرتا رہا گالوںمیں کوئی
ہم اندھیروں کے مکیں ان کو نظر آ نہ سکے
کس قدر محو رہا اپنے اجالوں میں کوئی
ہجر نے اتنا ستایا ہے کہ جی چاہتا ہے
کاش مل جائے تیرے چاہنے والوں میں کوئی
No comments:
Post a Comment