ہر گھڑی رائیگاں گُزرتی ہے
زندگی اَب کہاں گُزرتی ہے؟
درد کی شام دشتِ ہجراں سے
صُورت کارواں گزرتی ہے
شَب گراتی ہے بجلیاں دِل پر
صبح آتش بَجاں گزرتی ہے
زخم پہلے مہکنے لگتے تھے
اب ہَوا بے نشاں گزرتی ہے
تُو خفا ہے تو دِل سے یاد تیری
کس لیے مہرباں گزرتی ہے؟
اپنی گلیوں سے اَمن کی خواہش
تن پہ اوڑھے دُھواں گزرتی ہے
مسکرایا نہ کر کہ محسن پر
یہ "سخاوت " گراں گزرتی ہے
No comments:
Post a Comment