اسیری میں مر جانے دے ، قید سے اب آزاد نہ کر
تجھے واسطہ میری تباہی کا یہ ظلم میرے صیاد نہ کر
نہ کر توہینِ محبت ، یوں وفا کی گواہی مانگ کر
مجھے بھول چکی ہے دنیا ، اب تو بھی مجھے یاد نہ کر
بات تیری انا کی تھی ، میں تو یوں بھی چپ تھا
ہونا تھا جو ، ہو بھی چکا ، رو رو کہ اب فریاد نہ کر
کھیل نصیبوں کا دیکھ لیا ، میں نے تنہا رہنا سیکھ لیا
فقط اپنی محبت کی خاطر ، میری جستجو برباد نہ کر
تجھے چھوڑ جانے کی عادت ، مجھے تنہائیوں کا خوف
اس خالی کمرے کو اے دوست میرے پھر سے آباد نہ کر