وہ لوگ جو پیوست رگ خاک رہے ہیں
سوچو تو وہی حاصل ادراک رہے ہیں
آنکھوں کو ہے بیدار صلیبوں کی چبھن رآس
کہ خواب سفر وصل کے سفاک رہے ہیں
قطروں میں تراشےہیں کئی گونجتے دریا
ہم اپنے ہنر میں کبھی بیباک رہے ہیں
کچھ اپنا مسیحا بھی تھا نوخیز، پھر اپنے
کچھ درد بھی ہم قامت افلاک رہے ہیں
چاہت کے جزیروں سے تری خواب گلی تک
دل لےکے گریباں کی طرح چاک رہے ہیں
اطراف میں اجڑے ہوئے منظر کی خلش سے
آنکھوں میں بچھے صحرا بھی نمناک رہے ہیں
ہجرت کی ہواؤں پہ سفر زیست تھی فرخ
بکھرے ہوئے ہم صورت خاشاک رہے ہیں
No comments:
Post a Comment