ٹھہرے پانی کو وہی ریت پرانی دے دے
میرے مولا میرے دریا کو روانی دے دے
آج کے دن کریں تجدید وفا دھرتی سے
پھر وہی صبح وہی شام سہانی دےدے
تیری مٹی سے مرا بھی تو خمیر اٹھا ہے
میری دھرتی تو مجھے میری کہانی دے دے
وہ محبت جسے ہم بھول چکے برسوں سے
اس کی خوشبو ہی بطور ایک نشانی دے دے
تپتے صحراؤں پہ ہو لطف و کرم کی بارش
خشک چشموں کے کناروں کو بھی پانی دے دے
دیدء دل جسے اب یاد کیا کرتے ہیں
وہ چہرہ وہی آنکھیں وہ جوانی دے دے
جس کی چاہت میں حسن آنکھیں بچھی جاتی ہیںمیری آنکھوں کو وہی لعل یمانی دے دے
No comments:
Post a Comment