Thursday 11 April 2013

میں دشتِ ھِجراں کی قیدی پُکارتی ھوں تمھیں


کوئ تو درد جگاؤ بڑی اُداس ھے شام

چراغ خوں سے جلاؤ بڑی اُداس ھے شام



میں جسکو سُنکر پِگھل جاؤں موم کی طرح


وہ غم کا قِصہ سُناؤ بڑی اُداس ھے شام



وفا کے ذِکر پر کیوں ھو گیئ آنکھیں نم


نہ  بارشوں کو بُلاؤ بڑی اُداس ھے شام



میں دشتِ ھِجراں کی قیدی پُکارتی ھوں تمھیں


ذرا قریب تو آؤ بڑی اُداس ھے شام



وہ جسکے دم سے شاز ذندگی میں خوشیاں تھیں


اُسے تو ڈھونڈھ کے لاؤ بڑی اُداس ھے شام

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets