رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤں میں
ہم نے خوش ہو کے بھنور باندھ لئے پاؤں میں
ان کو بھی ہے کسی بھیگے ہوئے منظر کی تلاش
بوند تک بو نہ سکے جو کبھی صحراؤں میں
اے میرے ہمسفرو تم بھی تھکے ہارے ہو
دھوپ کی تم تو ملاوٹ نہ کرو چھاؤں میں
جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج
بٹ نہ جائے تیرا بیمار مسیحاؤں میں
حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا
اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں
جس براہمن نے کہا ہےکہ یہ سال اچھا ہے
اس کو دفناؤ میرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں
وہ خدا ہے تو کسی ٹوٹے ہوئے دل میں ہوگا
مسجدوں میں اسے ڈھونڈؤ نہ کلیساؤں میں
ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں
مجھ سے کرتے ہیں قتیل اس لئے کچھ لوگ حسد
کیوں میرے شعر ہیں مقبول حسیناؤں میں
No comments:
Post a Comment