مجھے ایسا لطف عطا کیا، جو ہجر تھا نہ وصال تھا
مرے موسموں کے مزاج داں، تجھے میرا کتنا خیال تھا
کسی اور چہرے کو دیکھ کر، تری شکل ذہن میں آگئی
تیرا نام لے کے ملا اسے، میرے حافظے کا یہ حال تھا
کبھی موسموں کے سراب میں، کبھی بام و در کے عذاب میں
وہاں عمر ہم نے گزار دی، جہاں سانس لینا مُحال تھا
کبھی تُو نے غور نہیں کیا، کہ یہ لوگ کیسے اُجڑ گئے؟
کوئی میر جیسا گرفتہ دل، تیرے سامنے کی مثال تھا
تیرے بعد کوئی نہیں ملا، جو یہ حال دیکھ کے پوچھتا
مجھے کس کی آگ جُھلسا گئی؟ میرے دل کو کس کا مَلال تھا؟
کہیں خون ِدل سے لکھا تو تھا، تیرے سال ِہجر کا سانحہ
وہ ادھوری ڈائری کھو گئی، وہ نجانے کون سا سال تھا؟
No comments:
Post a Comment