اُس کی آنکھیں تھیں سمندر، یوں تھا
میں تھا، پانی میں مرا گھر، یوں تھا
مجھ پہ اکثر ہی مہرباں رہتا
ادھ کھلے ہونٹوں کا ساغر یوں تھا
وہ جو ہنستی تو گڑھا ہنس پڑتا
اُس کے رخسار کے اوپر یوں تھا
اور کچھ کیسے سجھاٴی دیتا
وہ مری ذات کا محور یوں تھا
خاک اُڑنے سے بھی آنکھیں نم تھیں
کچھ شب ہجر کا منظر یوں تھا
میں نے اکثر اُسے کہتے پایا
یوں نہیں تھا، مرا اظہر، یوں تھا
No comments:
Post a Comment