اب نہیں درد چھپانے کا قرینہ مجھ میں
کیا کروں بس گیا اک شخص انوکھا مجھ میں
اس کی آنکھیں مجھے محصور کئے رکھتی ہیں
وہ جو اک شخص ہے مدت سے صف آرا مجھ میں
اپنی مٹی سے رہی ایسی رفاقت مجھ کو
پھیلتا جاتا ہے اک ریت کا صحرا مجھ میں
میرے چہرے پہ اگر کرب کے آثار نہیں
یہ نہ سمجھو کہ نہیں کوئی تمنا مجھ میں
میں کنارے پہ کھڑا ہوں تو کوئی بات نہیں
بہتا رہتا ہے تیری یاد کا دریا مجھ میں
ڈوب تو جاوں تری مد بھری آنکھوں میں مگر
لڑکھڑانے کا نہں حوصلہ اتنا مجھ میں
جب سے اک شخص نے دیکھا ہے محبت سے بقا
پھیلتا جاتا ہے ہر روز اجالا مجھ میں
No comments:
Post a Comment