وہ سراپا سامنے ہے ، استعارے مسترد
چاند ، جگنو ، پھول ، خوشبو اور ستارے مسترد
تذکرہ جن میں نہ ہو اُن کے لب و رُخسار کا
ضبط وہ ساری کتابیں ، وہ شمارے مسترد
کشتیِ جاں کا ہے رشتہ جب کسی طوفان سے
سب جزیرے رائیگاں ، سارے کنارے مسترد
اُس کی خوشبو ہمسفر راہِ مسافت میں ہو گر
خواب ، منظر ، رہگزر ، دریا ، شرارے مسترد
جب کوئی بوئے وفا اُن میں نہیں باقی رہی
ساری سوغاتیں تمھاری ، خط تمھارے مسترد
خاک و خوں کا دیکھنا ہی جب مقدر ہے ظفر
زندگی کے رنگ سارے ، سب نظارے مسترد
No comments:
Post a Comment