دن کچھ ایسے گزارتا ہے کوئی
جیسے احساں اتارتا ہے کوئی
آئینہ دیکھ کر تسّلی ہوئی
ہم کو اس کے گھر میں جانتا ہے کوئی
پَک گیا ہے شجر پہ پھل شاید
پھر سے پتھر اچھالتا ہے کوئی
پھر نظر میں لہو کے چھینٹے ہیں
تم کو شاید مغالطہ ہے کوئی
دیر سے گونجتے ہیں سناٹے
جیسے ہم کو پکارتا ہے کوئی
No comments:
Post a Comment