پھر بھی خوش تھا ،گرچہ میں بے مایا تھا
میرے دل پر تیری یاد کا سایا تھا
بانجھ رتوں میں پھول کھلانے والے دوست
میں نے کل تجھے کتنا سمجھایا تھا
دل کی دھڑکن روتے میں بھی ہنستی تھی
موسم نے وہ ایک سخن فرمایا تھا
خون کی بہتی ندیا میں بھی خوابوں کا
ہر شب ہم نے اک بجرا ٹھہرایا تھا
اب میں اسکے دھیان میں غلطاں پھرتا ہوں
کل میں جسکو خاطر میں نہ لایا تھا
No comments:
Post a Comment