وہی قصہ وہی ملنے کا بچھڑ جانے کا
وہی انداز پرانا کسی افسانے کا
وہی ملنا وہی وعدے وہی پیمانَ وفا
عمر بھر ساتھ نبھانے کی وہ جھوٹی قسمیں
خواب ہو جائیں گے یہ ایک دن ہمارے قصے
اور پھر یونہی کسی روز کسی موڑ تلے
تم یہ چاہو گی کوئی اور سہارا کرلوں
میں بھی چاہوں گا چلو تم سے کنارہ کر لوں
راستے ختم نہ ہوں گے مگر اُس موڑ تلے
تم کسی اور طرف دور نکل جاؤ گی
کئی یادیں کئی پیمان کئی صدمے دے کر
خواب بن جاؤ گی پرچھائیں میں ڈھل جاؤ گی
میں بھی رک جاؤں گا کچھ دیر کو کچھ سوچوں گا
پھر کسی سمت کہیں دور نکل جاؤں گا
پھر نئی صبح نئے لوگ نئے رستوں پر
اُسی قصے اُسی افسانے کو دہرائیں گے
ہاتھ میں ہاتھ دئیے ایک نئے جذبے سے
عمر بھر ساتھ نبھانے کی قسم کھائیں گے
منزلَ عشق کو پانے کی قسم کھائیں گے
لیکن اس دشت میں مٹی کے کے سوا کچھ نہیں
تجھ سے میری جان گلہ کچھ بھی نہیں
سب کو ایک روز کسی موڑ پر بچھڑ جانا ہے
سانس کا کیا ہے کسی روز اُکھڑ جانا ہے
کیونکہ ہر شخص کی قسمت میں جدائی نکلی
جسم بھی خاک ہوا روح پرائی نکلی۔۔
No comments:
Post a Comment